منگل، 20 فروری، 2018

بخشو

ارے او بخشو ارے او بخشو ادھر آؤ کدھر مر گئے ہو ہم کو تمہاری ضرورت آ پڑھی ہے۔ مشرق وسطی ميں جو اس وفت حالات ہيں وہ  کسی سے ڈھکے چھپے نہيں اور پاکستان کا کردار سواۓ بخشو کے اور کچھ نہيں ہے جس کی تازہ ترين اپ ڈيٹ پاک فوج کے تازہ دم دستے سعودی عرب پہنچ گيے ہيں اس سے تھوڑا عرصہ پہلے بھی کچھ دستے آۓ تھے جن کا موجودہ پڑاؤ يمن کا بارڈر ہے پاکستان کے حالات سے قطع نظر ميں صرف مشرق وسطی ميں بدلتے حالات پر بات کروں گا کہ دنيا کہاں کھڑی ہے اور ہم ابھی صرف بخشو کا کردار ادا کر رہے ہيں اس کردار ميں سياستدان، اسٹيبلشمنٹ اور فوجی جرنيل سب ملوث ہيں عوام کو نہيں پوچھا جاتا ہاں اپنے مفاد کے ليے سب عوامی راۓ کے نعرۓ لگاتے ہيں ليکن جو حقيقت بتانے والی ہوتی ہے اس بات کو ملکی مفاد کے وسيع تر مفاد ميں دبا ديتے ہيں، تازہ ترين اطلاع کے مطابق قطر کے مصر کے ساتھ خفيہ مذاکرات چل رہے ہيں اور ايک بہت بڑی ڈيل ہونی والی ہے اور اس ڈيل کے نتيجے ميں قطر لاکھوں کی تعداد ميں مصری افرادی قوت ويزوں پر منگواۓ گا اور اس کے علاوہ کچھ دوسری تجارتی سہوليات بھی دی جائيں گی اب مصر والوں کی عقلمندی ہے کہ ان لوگوں نے کمال ہوشياری سے اپنے لوگوں کے مفاد کو سامنے رکھا ہے نا ہی قطر سے قرضہ مانگا نا پيسے ليۓ اور نا ہی کسی قطری خط کی خواہش کا اظہار کيا ہے، اس سٹوری کے پيچھے ايک دوسری کہانی ہے کچھ عرصہ پہلے مصری صدر جنرل السيسی نے سعودی حکام سے بات کی کہ آنے والے اليکشن ميں ميری حالت بہت خراب ہے اور اليکشن جيتنے سے بھی قاصر ہوں اور چاہتا ہوں کہ وقتی طور پر اخوان المسلمون سے صلح کر لوں اور تمام قيادت کی پھانسيں اور عمر قيد معطل کر کے سب کو رہا کر دوں ليکن ايک شرط پر کہ يہ لوگ اليکشن ميں قطعی طور پر حصہ نہيں لے سکتے اور اس ڈيل کی گارنٹی وہ لوگ ديں گے جو مذاکرات کا حصہ ہوں گے ليکن سعودی ولی عہد نے اس پر نہايت شديد رد عمل ديا اور ناراضگی کا اظہار بھی کيا اور مصری صدر کو ٹکا سا جواب دے ديا، دوسری طرف سعودی عرب ميں روزگار کی قلت کے جو مصنوعی حالات پيدا کيے گيے ہيں ايک سازش کے تحت وہ تو نہايت کاميابی سے جاری ہے اور اس بحران سے متاثر ہونے والے تمام ملک اب پيچھے ہٹ رہے ہيں سواۓ بخشو کے کيونکہ اس کی زد ميں پاکستان اور برآۓ نام انڈين کے بعد مصريوں کا نمبر آ رہا ہے جيسے پاکستانی دھڑا دھڑ ڈی پورٹ ہو رہے ہيں اسی طرح مصری بھی اور يہی لوگ اب صدر سيسی کے ليے لوہے کے چنے بن رہے ہيں اب بے روزگار مصريوں کو روز گار ملے گا تب اليکشن ميں کچھ کاميابی کے چانس ہيں ورنہ نہيں، مصری حکومت کے ايک اہم عہدے دار کے بقول الاخوان کو مصر ميں بلکل بھی نظر انداز نہيں کيا جا سکتا کيونکہ وہ ايک طاقت ہيں اور فريق بھی، مصر نے يہی حکمت عملی اعراق کويت جنگ ميں بھی اپنائی تھی جس کے نتيجے ميں لاکھوں مصری روگار کے سلسلے ميں کويت آۓ، تب بخشو نے سو پياز بھی کھاۓ اور چھتر بھی کيونکہ ابھی تک پاکستان کو کوئی ليڈر نہيں ملا صرف پنج سالہ فصلی بٹير نما سياستدان ملے ہيں جن کا اولين حدف ملکی دولت کو لوٹ کر لندن اور عرب راجواڑوں ميں چھپانا ہے اس قبيح فعل ميں سياستدان اور جرنيل سبھی شامل ہيں اب تو پوليس والے بھی شامل ہو گيے ہيں ابھی کچھ دن پہلے ايک چھوٹے سے عرب ملک وہ بھی مقبوضہ يعنی فلسطين نے بخشو کے ساتھ کتے جيسی کر دی ہوا يوں کہ ايک جلسے ميں منتظمين نے کچھ مقرر بلاۓ ہوۓ تھے جس ميں فلسطينی سفیر کو بھی بلايا گيا تھا اس جلسے ميں حافظ سعيد صاحب کو بھی دعوت دی گئی تھی تصوير سامنے آنے پر انڈيا نے اتنا شور مچايا کہ جناب محمود عباس نے انڈيا کی يک طرفہ محبت ميں اپنے سفير کو واپس بلا ليا اور پاکستان کی ايک نا مانی حالانکہ پاکستان نے دنيا کے ہر فورم پر فلسطين کی حمايت کی اور امريکہ کو بھی ناراض کيا جو کہ عربوں کا ابو جان ہے ليکن بدلے ميں فلسطينی قيادت نے کبھی بھی کشمير کے بارے ايک لفظ نہيں بولا اور نا ہی کبھی انڈين مظالم کی مذمت کی ہے محمود عباس کو اگر انڈيا کا اتنا ہی خيال ہے تو وہ پہلے اپنے ان عرب راجواڑوں کے بادشاہوں سے بات کرے جن کے سفارتی تعلقات ہيں اسرائيل سے اور انڈيا سے بھی، انڈين سفارت کاری کو آپ اس نظر سے ديکھيں کہ ايک طرف وہ ايران کا دوست بھی ہے عربوں کا دوست بھی اور اسرائيل کا بھی دوسری طرف امريکہ اور روس کا بھی اب اس سے زيادہ کامياب سفارت کاری اور کسے کہتے ہيں؟ ہم تو صرف بخشو ہيں سعودی عرب ميں جتنے برے حالات پاکستانيوں کے ہيں شايد ہی کسی اور قوم کے ہوں شلوار قميض کو ديکھتے ہی شرطے کی گاڑياں الرٹ ہو جاتی ہيں اور بے چارے جو لاکھوں روپے کا ويزہ لے کر آۓ ہوۓ ہيں ان کو جان بوجھ کر غير قانونی ثابت کر کے ملک سے بے دخل کر ديا جاتا ہے دوسری طرف رياض ميں جنادريہ ميلے کا مہمان خصوصی انڈيا کو بنايا جا رہا ہے سہولتيں ان کو دی جا رہی ہيں بزنس ٹريپ ان سے ڈيل ہو رہے ہيں بت کدے ان کے بناۓ جا رہے ہيں اس وقت پورے گلف ميں سب سے زيادہ تعداد انڈين لوگوں کی ہے ہونا تو يہ چاہيے تھا کہ اب سعوديہ کا دفاع بھی انڈيا ہی کرے اس کی فوج آۓ تاکہ ان کو بھی پتا چلے کہ کيسے مکتی باہنی بنتی ہے ليکن کيا کريں قصور ہمارا ہے کيونکہ ہم بخشو ہيں دس فٹ کے کسی عرب ملک کو ہم لوگ ڈيل نہيں کر سکتے کيونکہ ہم کو قرضے چاہيے سياسی پناہ چاہيے حکومتوں ميں ہونے کے باوجود اقامے چاہيے سٹيل مليں لگانی ہيں امداد لينی ہے جس پيسے کا حساب نا دينا ہو اس کے ليے خط بھی لينے ہيں ہماری قوم کو وہ مقام آج تک نہيں ملا جس کی يہ حق دار تھی طاقت ور بننے کے ليے کبھی بزدلوں سے مشورہ نہيں ليا جاتا بلکہ کر کہ دکھايا جاتا ہے جيسے کہ ترکی نے کيا اور قطر، صوماليہ، اور اعراق ميں اپنے فوجی اڈے بناۓ ہونا تو يہ چاہيے تھا کہ پاکستان بھی آگے بڑھ کر قطر، بحرين، صوماليہ، سودان، ليبيا، مالی اور سينيگال ميں اپنے فوجی اڈے قائم کرتا پھر ديکھتے کہ يورپ اور امريکہ کے سامنے اور قريب ترين فوجی اڈے بنا کر ايٹمی ميزائيل سے آراستہ پاکستان کا کون راستہ روکتا ليکن مسلہ بخشو کا ہے جاپان پر ايٹم بم گرا تو اس نے تباہی کے بعد دنيا کو اپنے آگے جھکا ليا ہم نے ايٹم بم بنايا اور ساری دنيا سے جوتے کھا رہے ہيں اور اس کو چھپاتے پھر رہے ہيں کہ کدھر اس کو کوئی چلا نا دے يا چرا نا لے، وہی سو بات کی ايک بات سو پياز بھی اور سو چھتر بھی اور تو اور ہم لوگ قطر سے بھی کوئی مفاد نہيں لے سکے اور ساتھ بھی کھڑے رہے ہيں انڈيا نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھايا ہے ليکن ہم صرف ايک عدد خط سے خوش ہيں راحيل شريف صاحب اپنی نوکری پکی کرنے ميں لگے ہوۓ ہيں عوام کی حالت نا تين ميں نا تيرہ ميں لوگوں کو اب اپنا حق مانگنا ہوگا اور اٹھنا ہوگا قربانياں بھی دينی ہوں گی اور ان بارياں لينے والے فصلی بٹيروں سے جان چھڑانی ہو گی اور ساتھ ساتھ ان جرنيلوں سے بھی جو قوم کو الو بنا رہے ہيں اور ان ججوں سے بھی خدا کے ليے اب کوئی دوست يہ کومنٹ مت کرے کہ يہ سب نواز شريف کرے گا بلکہ نواز شريف تو اس کھيت کا وہ درخت ہے جس کے سروں کی کھيتی پک چکی ہے اب ان سروں کو اتارنا ہو گا فصل پک چکی ہے پوليس والے، جرنيل، سياستدان، بيورو کريٹ، ميڈيا ان تمام مگر مچھوں سے جان چھڑانی ہو گی ان بٹيروں پر جب برا ٹائم آتا ہے تب يہ عوام 
عوام کی رٹ لگاۓ رکھتے ہيں ليکن کسی اہم مسلے پر اس عوام سے کبھی پوچھا بھی نہيں کيونکہ ہمارے سياستدان تو السيسی جتنے بھی عقلمند نہيں ہيں اگر فوج بھيجنی ہی تھی تو کم از کم ان عربوں سے اپنے مزدورں کے ليۓ تھوڑی عزت ہی مانگ ليتے ان غريبوں کو اور کچھ نہيں چاہيے ليکن کرے کون جو بولے وہی کنڈی کھولے۔

احمد يسين 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں